Become Our Member!

Edit Template

بیٹھک کے در و دیوار

بیٹھک کے در و دیوار

ایک سیدھی سڑک گاؤں کے باھر سے گزرتی تھی، نہ بہت چوڑی نہ بہت تنگ۔ وقت کے ساتھ پکی ہو چکی تھی، لیکن اس کے کناروں پر اب بھی وہى مٹى، وہى دهول، وہی گاؤں کی خوشبو بکھری ہوتی تھی۔ اس سڑک پر چلتے چلتے، کوئی تیس منٹ کی مسافت پر چھوٹے چھوٹے کئی گاؤں آتے تھے، جن کے نام اکثر یاد بھی نہ رہتے، لیکن چہروں کی پہچان باقی رہتی۔

سڑک پر بیل گاڑیاں، سائیکلیں، ٹیمپو، کبھی کبھی کوئی بگھی سی آنکلتی۔ جب فصلیں کتنے کا وقت ھوتا تو سڑک پر جیسے میلوں کا سا سماں بندھ جاتا۔ ٹریکٹر کی گڑگڑاہٹ، ٹریشر کی آوازیں، اور بیل گاڑیوں کی گھنٹیوں کا جھنکار، سب مل کر جیسے کسی پرانے گیت کی دھن بجا رہے ہوں۔

اسی سڑک کے کنارے سے ایک کچی پگڈنڈی اندر کو جاتی تھی۔

اس کے سرے پر پان کی ایک ٹیری تھی اور ساتھ ھی چائے کی چھوٹی سی دکان، جو ایک پیپل کے پیڑ کے نیچے بنائی گئی تھی۔ دو لوہے کے بینچ، جو اتنے پرانے ہو چکے تھے کہ یوں معلوم ہوتے گویا وہ بھی پیپل کی جڑوں سے ہی نکلے ہوں۔ وہیں سے کھلتا تھا نانا جان کے گاؤں کا راستہ ۔

سیدھے ھاتھ پر کھیت، اور دائیں ھاتھ پر ایک سرکاری اسکول۔ امی اکثر بتایا کرتی تھیں کہ وہ اور ان کے بھائیوں نے ابتدائی تعلیم وهيں حاصل کی تھی۔ اسکول کا میدان بہت بڑا تھا۔ نیم کے پیڑوں کے سائے میں طلباء، جن کے سفید شرٹس اور خاکی پتلونیں مٹی سے اٹی ھوتی تھیں۔لڑکیاں سفید کرتا، لال شلوار اور لال چننی پہنے ایسے لگتیں جیسے کسی پرانی تصویری کتاب کے ورق سے نکل آئی ہوں۔ کلاسز کمروں میں کم، پیڑوں کے نیچے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ ایک ہندی میڈیم تھا۔

اسکول سے آگے ریل کی پٹری سڑک کے بیچوں بیچ آ نکلتی تھی۔
گاؤں والوں نے پٹری پر اتنا چلا کہ وہ زمین میں دھنس سی گئی تھی۔ بچپن میں مجھے لگتا تھا کہ ریل یہاں آ کر پٹری سے نیچے گر جاتی ھو گی۔ ایک روز ریل کو چلتے دیکھا تو یہ گمان بھی جاتا رہا۔

بارش کے دنوں میں وھی سڑک دلدل بن جاتی۔ سلیپر پہن کر نکلو تو کیچڑ کے جوتے بن جاتے۔ میں اور میرے بھائی اکثر یہی کرتے، کیچڑ میں قدم رکھ کر کیچڑ کے جوتے بناتے۔ سلیپر اکثر ٹوٹ جاتے، لیکن امی کبھی کچھ نہ کہتیں، وہ واقعی معصوم ہیں

چار موڑ کاٹ کر وہ سڑک نانا جان کی حویلی تک جا پہنچتی۔ اوه هاں! وكيل صاحب کی حویلی! نانا جان پیشے سے وکیل تھے، اور اردگرد کے گاؤں میں اسی نام سے جانے جاتے تھے۔
وہ حویلی… ایک خواب جیسی۔ پرانے طرز کی، لیکن خوشبو سے بھرپور۔ صحن میں گملے، جھاڑیاں، اور پھولدار بیلیں ۔ اور سب سے حسین گوشه … نانا جان کی بیٹھک۔

بیٹھک, ایک خاموش مگر بولتی ھوئی کہانی۔ ایک بڑا سا لکڑی کا میز، اس پر پرانے اخبار، ایک وزنی پیپر ویٹ، چند کتابیں اور کھیتوں کا حساب رکھنے والی ڈائری۔ دیوار پر ایک بڑی سی پرانی دیوار گھڑی جو پورے کمرے کو اپنی آواز سے بیدار رکھتی تھی.

دیواروں پر مٹی کی مضبوط اینٹیں اور ساتھ ھی محراب بنے تھے چراغ جلانے ، لکڑی کے ستون، اور دو کھڑکیاں جن سے صبح کی روشنی اور شام کی خاموشی چھن کر اندر آتی تھی۔ چھت پر ایک پنکھا، جو ایک لمبی راڈ سے چلتا تھا اور شور زیادہ کرتا تھا۔

کمرے میں ایک بڑا سا آئینہ تھا جو آدھی دیوار کو ڈھانپ لیتا تھا، اور دروازے کے اوپر ایک تصویر, نانا جان کی، ان کے گریجویشن ڈے کی۔ بلیک اینڈ وائٹ تصویر، مگر اس میں چھپی رنگینی نانا جان کے چہرے سے عیاں ھوتی تھی

-دو دیوار میں الماریاں, ایک میں قانون کی کتابیں، دوسری میں دینی کتب هندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں، کیونکہ وہ اهل سنت سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ایک بھی تھی جس میں کپڑے رکھے جاتے، کمرے کے باھر گملوں میں بیلیں، جو بیٹھک کو اور زیادہ پرنور بنا دیتی تھیں۔ بیٹھک کے دو دروازے: ایک اندر والوں کے لیے، ایک باھر والوں کے لیے, جو کبھی بند نہ ھوتا۔ کہنے کو یہ نانا جان کی بیٹھک تھی، مگر گاؤں بھر کے مسائل کی عدالت بھی۔
صحن میں آگے ایک بہت زیادہ بڑا اور بے حد پرانا ، املی، نیلگری اور ریٹھے کا پیڑ لگا ھوا تھا۔ املی کے پیڑ کے نیچے .جانوروں کا کوٹھا تھا، جہاں رات کے وقت گائے بیل رکھے جاتے اور صبح یہ بنڈی کے ساتھ کھیت میں چلے جاتے

اور اسی املی کے پیڑ کے نیچے ایک ٹوٹا ھوا مٹی کا گھڑا بھی ركها هوتا، جس میں نانی امی وہ چائے کی پیالیاں ڈال دیتیں جن کی ڈنڈیا ٹوٹ جاتی۔ اس طرح چار سے پانچ گھڑوں میں انہوں نے رنگ برنگ، مختلف ڈیزائن کی نایاب کلیکشن سنبھال کر رکھی ھوئی تھی۔ آگے جا کر پھولوں کی باڑی میں مرغوں کا گھر تھا، جس میں بہت سی مرغیاں رکھی ھوئی تھیں۔ امی کا کہنا ھے کہ ان کے بچپن میں بطخیں بھی ھوا کرتی تھیں ۔

پهر… وقت گزرا، نانا جان چلے گئے، اور بیٹھک اسٹور روم بن گئی۔ اب وہاں کھیت کی کئی فصل رکھی جاتی ہے۔ –

ليكن جب بھی ہم گاؤں جاتے، امی کو بیٹھک صاف کرنے کا جنون سا هوتا۔ شاید وہ صفائی نہیں کرتیں، یادوں کو چمکاتی تھیں۔ ویسا هی حال پیارے ماما کے کمرے کا بھی ھوا۔ وہ بھی جب چلے گئے، اور امی نے ان کے کمرے کو بھی اپنی یادوں کا میدان بنا لیا۔ پیارے ماما نے نانا جان کی وہ تصویر اپنی . کمرے میں ٹانگ دی تھی

شاید امی صفائی نہیں کرتی تھیں… وہ بس یادوں کو جگاتی تھیں، اور خود ان میں سو جاتی تھیں۔

…پھر یوں ھوا… کہ “مکان رہ گیا، مکیں چلے گئے” اور بیٹھک… اب بھی اپنی پرانی تصویر، پرانے اخبار اور دھول میں لپٹی خامشی لیے، نانا جان کی راہ تکتی ھے

ازقلم:سیده ندا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIO Telangana

Girls Islamic Organisation of Telangana (GIO) is a student organisation for girls who’s aim is To prepare female students and young women for the reconstruction of the society in the Divine Light of Guidance.

Most Recent Posts

  • All Posts
  • Book Review
  • Books
  • E-books
  • English
  • Events
  • From The Members Desk
  • Urdu
    •   Back
    • Urdu Books
    • English Books

Category

Tags

© 2025 Girls Islamic Organisation Telangana.