اس نے ایک چھوٹا سا کاغذ نکالا جو جیب میں مڑے رہنے سے بہت خراب ہوگیا تھا اور مجھے تھمادیا. میں بڑے غور سے اسکا پیغام پڑھنے لگی
اچانک میری نظر کاغذ کے کنارے پڑی جہاں نام اور تاریخ لکھی ہوئی تھی
میں نے کاغذ کو تکیے کے نیچے رکھا اور کمرے سے باہر نکل کر بھائی کے پاس گئی اور اُن سے پوچھا
– صادق ، یہ کاغذ تمہیں کہاں سے ملا ؟ کس نے دیا؟
صادق: آپی یہ کاغذ مجھے باجی نے دیا اور کہا تھا کے آپکو دوں
بغیر کوئی جواب دیے میں کمرے میں جلد واپس آگئی اور وہ کاغذ دیکھنے لگی جو نہ صرف ایک پیغام تھا بلکہ میرے وجود میں کئی یادیں، کئی احساسات اور جذبات اتارنے لگا
اس میں لکھا تھا
میں نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے ، اور زندگی بھر کے مشاہدے سے یہ سمجھ آیا کہ ہم اپنی زبان سے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، جب ہمارے خود کے عمل کی باری آتی ہے تو دل کو بہلالیتے ہیں یا حقیقت پر دل کی جھوٹی تسلّی کا نقاب چڑھادیتے ہیں۔ ہم دین کو سربلند کرنے کے نعرے لگاتے ہیں، قانونِ الہٰی کو نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ تو کیا آج ہم جس راستے پر کھڑے ہیں، وہی راستہ ہے جسکا ہم دعویٰ کرتے ہیں؟
بچوں سے لیکر بوڑھوں تک صرف شریعت کے الفاظ یاد رہے، جذبئہ عمل گم ہوتا جارہا ہے.”
محمودہ فاطمہ
۱۲/۹/۱۹۹۷
دادی کا لکھا ہوا یہ پیغام پڑھ کر میں گہری سوچ میں پڑگئی، میں خود سے سوال کرنے لگی: کیا سچ میں ہم دوغلے پن کا شکار ہیں؟ یا ہم دنیا پرست ہیں؟
رات گہری ہوتی جارہی تھی مگر یہ سوالات مجھے جگائے رکھے. میں بے چین تھی. مجھے اپنے اعمال یا اطراف و اکناف کے حالات جیسے جیسے یاد آرہے تھے، میرا اطمینان اور بھی ختم ہوتا جارہا تھا. یہ حقیقت ہے کہ روح کو اضطراب جانی و مالی نقصانات سے ہوتا بھی ہے، تو اللہ تعالیٰ کا قرب اسے چین دے سکتا ہے، لیکن اس بے چینی کا کہاں حل رکھا ہے جو خدا سے ہی دوری کی وجہ سے طاری ہوجائے؟
میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں دیکھتی ہوں کہ دادی کی بات صرف مجھے تو حقیقت نہیں لگ رہی ہے؟ اب حالات بدل تو نہیں گئے ہیں؟
اگلے دن كالج جاتے ہی میں سمینہ سے فوراً پوچھ بیٹھی، “سمینہ تم تعلیم مکمل کرکے مستقبل میں کیا كروگی؟
سمینہ: “میں کرونگی، سوچ رہی ہوں لیکچرر ہی بن جاؤں، سنا ہے اچھی تنخواہ ملےگی
پھر میں کوثر کے پاس گئی اور وہی سوال کیا
کوثر : “میں ڈگری پاس کرلوں تو ہی بہت ہوگا، تم تو جانتی ہونا۔۔ مجھے پڑھائی بالکل بھی پسند نہیں
میں نے پوچھا – ” ڈگری کے بعد کا کچھ سوچا؟
کوثر : سوچنا کیا ہے گھر والے شادی کردینگے بس۔۔
پھر میں عافیہ کے پاس گئی، اس امید سے کہ عافیہ ھوشیار ہے، میری توقع کے مطابق ہی جواب ملےگا اور میں نے اُس سے وہی سوال کیا
عافیہ : دیکھو بھئی، مجھے اعلیٰ تعلیم یافتہ بننا ہے. بڑے كالج میں سیٹ چاہیے تھی، اب اس كالج میں آہی گئی تو اور اچھے نمبر لاؤنگی تاکہ یہیں سے جاب مل جائے یا گورنمنٹ جاب کی کوشش… پھر تو لائف سیٹ
سب کے جواب سن کر دل بیٹھ گیا تھا۔ چھٹی کے بعد گھر آئی تو اپنے چھوٹے بھائی سے وہی سوال کیا
اس نے کہا
میں پہلے انجینیر بنوں گا، پھر امریکہ جاکر ماسٹرس کرونگا اور سٹل ہوجاؤں گا
دل پر اُداسی چھاگئی تھی. ہر فرد ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگا نظر آرہا تھا۔۔۔
مغرب کی اذان کانوں میں گونج اٹھی. نماز اور دعا کے بعد میں جائے نماز پر ہی بیٹھ گئی اور قرآن پڑھنے لگی. خدا مجھ سے مخاطب تھا
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِؕ 3:110
تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔۔
میں تو اس آیت کو بارہ مہینے کسی نہ کسی سے سن لیا کرتی تھی، مجھے جیسے یاد ہی ہوگئی تھی، لیکن آج مفہوم کچھ اسطرح سمجھ آیا کہ میری زندگی بدل کر رکھ دی گئی
اللہ نے ہمیں خلیفہ بناکر بھیجا ہے، مجھے جہاں صلاۃوصوم کی فرضیت سکھائی، وہیں دین کی سربلندی کا کام انجام دینے کی بھی. اللہ چاہتا تو خود ہی دین کو اسکی زمین پر نافذ کردیتا، لیکن اس نے مجھے اس کام کے لیے چنا ہے. ہم سب کو اس کام کے لیے چنا ہے
ماں- باپ یہ سوچتے ہوئے اور یہ ارادہ کرکے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیج رہے ہیں کہ: ‘بیٹا’ اچھا پڑھو تو انٹرنیشنل ڈیمانڈ بڑھے گا، اب بس تھوڑی محنت کرلو، پھر آرامیاں ہی میسر آئیں گی
“اور ہاں ‘بیٹی’، اچھی اور اعلٰی تعلیم نہ رہے تو رشتہ طے ہونے مشکل ہوجائے گی. بس تھوڑے دن کی محنت درپیش ہے”
مجھے تو افسوس ہورہا تھا کہ جس سکون اور کامیابی کی آرزو ہم کررہے ہیں وہ تو فانی ہے. اعلی تعلیم اور اچھی زندگی کی تو ٹھیک ہے لیکن اس وقت جب تعلیم حاصل کرکے ہم اپنے شعبے کے ماہر بن جائیں، اور ان صلاحیتوں سے دین کی سربلندی کا فریضہ انجام دیں، اپنی زندگی احکامِ الٰہی کی مُطابق گزاردیں اور معاشرے میں نیکیوں کو فروغ دینے کی جدوجھد کرتے رہیں
قطب شہید رحمۃ اللہ کا وہ قول مجھے یاد آنے لگا کہ
“انسانیت اب ایک نئی قیادت کی محتاج ہے۔ اب تک انسانیت کی یہ قیادت اہلِ مغرب کے ہاتھ میں تھی مگر اب یہ روبہ زوال ہے۔”
ایک ایسی قیادت کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو ایک طرف یورپ کی تخلیقِ ذہانت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ماددی ترقی کی حفاظت کرسکے اور اسے مزید نشونما دے سکے، اور دوسری طرف انسانیت کو ایسے اعلیٰ اور اکمل اقدارِ حیات بھی عطا کرسکے جن سے انسان ناآشنا ہوتا جارہا ہے، اور ساتھ ہی انسانیت کو ایک ایسے طریقے زندگی سے بھی روشناس کرا سکے جو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہو، مثبت اور تعمیری ہو، اور حقیقت پسندانہ ہو . یہ حیات آفرین اقدار اور منفرد نظامِ حیات صرف اسلام کے پاس ہے
میں نے مزید سونچا اور فیصلہ کیا کہ یہی افکار ہے جسکو عام کرنا ہوگا، معاشرے میں جو غلط خیالات اور رواج بس گئے ہیں انکو جڑ سے نکال پھینکنا ہوگا. یقیناً یہ کام مشکل اور دشوار ضرور ہے لیکن بلند حوصلے ، پُختہ عزم، صبر اور عملی کوشش سے کامیابی یقینی ہے
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہے مسلماں ہونا
صودہ سمرین، جگتیال