کہ اندھیرا آیا تھا مانگنے روشنی کی بھیک۔۔
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے۔۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ جب کبھی اجالے کی بات ہوتی ہے تو اندھیرے پر تبصرہ کرنا لازمی ہوجاتا ہے ۔ اور پھر دونوں کے درمیان اجالے کو فوقیت حاصل ہوجاتی ہے ۔۔ کیونکہ اندھیرا اپنی تاریکی کی وجہ سے بہت سے ظلم اپنے اندر سمیٹ کر دبا دیتا ہے۔ اور جب مظلوم کی آواز اس تاریکی کو چیر دیتی ہے تب قوم کے معمار اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور انکے جذبے صرف ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ “انقلاب زندہ باد” اور پھر اس تاریک، ظلم بھری رات کو اجلی اور روشن صبح کے ذریعے شکست دیتے ہیں۔۔ اور آج کے حالات بھی بلکل مساوی ہے۔
ہاں بہنو، اب ہمیں ایک اجالے کا آغاز کرنا ہوگا جو کہ اس وقت ممکن ہے جبکہ ہم اس پرانی اندھیری اور خطرناک رات کی تاریکی کا اختتام کرینگے۔۔۔
کہ جس کے اندر مساوات و انصاف نہیں
جو صرف امیروں کے لئے آرام دہ گدوں پر سوکر مزے لوٹنے کی حد تک ہے ،جس اندھیرے کے بھٹکے ہوئے لوگ ہمارے بیچ فساد اور دنگے پیدا کر رہے ہیں۔۔۔ اور پھر ہماری اخوت اور ہمدردی کا جنازہ کھلے عام نکال رہے ہیں۔
ہمیں اندھیروں کو مٹانا ہوگا۔۔ہمیں شعلوں کو بھڑکا نا پڑے گا، ہمیں اس روشنی کی کرنوں کو ہماری طرف پھیرنا پڑے گا،اس تاریکی سے وابستہ ان سبھی راہ کے چوروں کو مٹانا ہوگا ،سبھی جھوٹے جو اس تاریکی کی سفارش کرتے ہیں ان سب کو پھر ہمیں سچ سے نہلانا ہوگا ،اس رات کی تاریکی کی پھیلائی ہوئی بدبو کو ہمیں مٹانا ہوگا اور پھراس گلستان کو صبح روشن کی خوشبو سےمہکانا ہوگا۔۔
ہاں بہنو! اس اجلی صبح کے آغاز میں ہمیں تاریکی کےباب کا اختتام کرنا ہوگا۔۔ کیونکہ اس رات کے اندھیرے میں میں دیکھتی ہوں کہ بھوک سے تڑپتے بچے ہیں،اس تاریکی میں مجھے اس باپ کی چیخیں سنائی دیتی ہیں کہ جس نے بے روزگاری کی وجہ سے اپنی چھوٹی چھوٹی بچیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
مجھے اس تاریکی میں آصفہ ،نربھیا، جیسی ہزاروں بہنوں کی آوازیں انصاف کے لئے گونجتی اور اپنے محافظوں کو پکارتی نظر آتی ہیں
مجھے اقلیتیوں کی وہ بے بسی اس تاریکی میں عیاں نظرآتی ہیں
جن کو دیکھتی ہوں تو میرے دل کے جذبات پکار اٹھتے ہیں ،میرا لہو گرم ہوجاتا ہے
میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔۔۔اور مجھے اس بات کو یاد دلاتی ہیں کہ
اب تو اجالا کرنا پڑے گا۔۔۔
اب تو محافظ بننا پڑے گا۔۔۔
لیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر
یہ پردۂ ظلمات ہٹ چکے تو کہوں۔۔۔
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا۔۔۔
مجھے تو نیند نہیں آئے گی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا۔۔
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گی
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہارونگی۔۔۔
Rumana Fatima, Nizamabad