ظلم، بربریت، فساد، فتنہ،مکاری عیش پرستی،نا انصافی،دھوکا،جھوٹ، بد عنوانی، مادہ پرستی، بے حیائی، بے ایمانی، حسد، بغض۔۔ ہر وہ گناہ جو ممکن ہے ظلمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔۔
جب سے دنیا بنی تب ہی سے اچھائی اور برای: دو حریف تختہ زمین پر موجود ہیں، اور قیامت تک موجود رہینگی- برائ کو ظلمت اور اچھائ کو نور کہا گیا۔ برسوں سے قتل و غارت گری، غنڈاگردی، لوگوں کے حق مارے جانا، ظلم و ستم زیادتیاں کرنا، وغیرہ چلے آ رہے ہیں۔
آپ صل اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے جہالت پھیلی ہوئی تھی۔ انسان فساد اور فتنے میں ملوس تھا، شراب عام تھا، ظلم وجبر ہوتا، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور عورتوں پر سخت ظلم ہوتا۔ غرض یہ کہ تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ آپ صل اللہ علیہ و سلم تشریف لاۓ اور وقت کو بدل ڈالا۔ جہالت کے ورق کو پھاڑ دیا گیا اورامن ہر طرف چھانے لگا۔ نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ان برائیوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ دای ہم پر ہے۔ ہمیں بتلایا کہ اس تاریک رات کا نور ہم ہیں اور اس گہرے کھائی کی طف جانے سے لوگوں کو بچانے کی قدرت ہمارے اندر ہے۔
برما،فلسطین، شام، امریکہ، چین، ہندستان؛ سارے مملاک آج ظلم کی لمبی داستان سنارہےہیں۔ کہیں نسلوں کا امتیاز ہے تو کہیں نگ کا فق۔ کہیں ذات پات کا تو کہیں مذاہب کا۔ لیکن “ظلم کو سہنا ظلم کرنے کے برابر ہے” اگر ظلم کے خلاف نہیں اٹھے تو ہم نے ظلم کیا۔ ہر دور میں ظلم کو مٹانے چراغ جلے، ان چراغوں سے شمع تو جلی۔ لیکن کئی بار ظلمت کی چادر نے اس شمع کو بجھا دیا. اب صرف چراغ نہیں بلکہ سورج کا طلوع ہونا ضروری ہے، یعنی ظلم کو ختم ہونے کے لیے پوری قوم کا اٹھنا انقلاب برپا کرنے کے مانند ہوگا۔ بے شک راہ تو دشوار ہو گی لیکن کہتے ہیں نا کہ
“راہ کی دشواریاں منزل کے قیمتی ہونے کی علامت ہوتی ہے”
شیخ سعدی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ
میں زندگی میں دو انسانوں کو تلاش کرنے پر بھی تلاش نہیں کر سکا
پہلا وہ جس نے خدا کی راہ میں دیا ہو اور غریب ہو گیا ہو
دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور خدا کی پکڑ سے پچ گیا ہو
قوموں کے زوال کی وجہ ظلم سے ڈر کر دبے رہنا ہے۔ قرآن ظلم کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے۔ ظلمت کے راستے تو بڑے ہے مشکل، ان کو پار کرنا ہے صبر سے۔ ظلم کبھی ٹکا نہیں ہے۔ ظلم اور غرور کی سزا دنیا میں ضرور ملتی ہے۔
اگر ہم دھو کا کھاتےہوئے بھی چپ رہے تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم اپنے کام کے لیے رشوت دیتے ہیں تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم نے مہنگائی سے غربا کا جینا حرام کردیے جانے پر انگلی نہیں اٹھائی تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم سماج کے بیجا رسومات کو دیکھ کر بھی ان دیکھی کرتے ہیں تب بھی ہم نے ظلم کیا۔
“حضرت امام حسین رضی یااللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ “ظالموں کےساتھ زندہ رہنا خود ایک ظلم ہے
ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی قربانیاں دینی پڑھے گی۔
اگے بڑھو اور لڑؤ۔
اگر ایک نئ صبح کے منتظر ہو تو ظلم کو مٹاؤ۔
اس دور کی ظلمت ہیں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرماں دے
از قلم:-صبورا حورین، جی آئی او، ظہیرآباد