اقبال صاحب کا لیکچر چل رہا تھا، ہر منگل ، نماز عصر کے بعد، کالونی کے نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے پروفیسر صاحب اسلامی موضوعات پر لیکچرس دیا کرتے تھے، وہ بہت ہی ذہین، اعلیٰ اخلاق کے شخصیت کے مالک تھے، اُن کے لیکچرس کی یہ خاصیت تھی کہ لوگ اُن کی باتوں پر غور و فکر کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ آج بھی یہی ہوا، عبداللہ جو تیس منٹ سے لیکچر سماعت فرما رہا تھا۔ لیکچر ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خیالات میں کھو گیا،
حامد: کیا ہوا عبداللہ، تم کہا کھو گئے ہو۔
(عبداللہ ایک دم سے چونک گیا)
نہیں کہیں نہیں،عبداللہ نے کہا۔
حامد: چلو پھر گھر چلتے ہیں۔
عبداللہ: ہاں چلو!
(عبداللہ کے ذہن میں پروفیسر صاحب کا صرف ایک ہی جملہ گونجے جارہا تھا ۔ )
عبداللہ اپنے دوست کے ساتھ چل رہا تھا،
حامد:چلو میرا گھر آگیا خدا حافظ، کل ملتے ہیں۔
عبداللہ: ٹھیک ہے، خدا حافظ۔
عبداللہ گھر کی طرف چلنے لگا، گھر قریب تھا کہ اُس نے دیکھا، فاطمہ(بہن) دوڑتی ہوئی، اسکول کے یونیفارم میں آ رہی ہے۔ (فاطمہ تیرہ سال کی ہے، جو غالباً اسکول کی طالبہ ہے، اور اپنے بھائی سے تین سال چھوٹی ہے۔)
عبداللہ فاطمہ کے قریب پہنچ کر کہنے لگا۔
فاطمہ کیا ہوا، اتنی بھاگی بھاگی کیوں آرہی ہو، سب خیریت!
فاطمہ: السلام علیکم بھائی، جی سب خیریت، بس امی سے کچھ پوچھنا تھا۔
عبداللہ:اچھا! ٹھیک ہے چلو، اندر چلو۔
عبداللہ، فاطمہ: السلام علیکم امی جان
امی:وعلیکم السلام بچوں
فاطمہ:امی جلدی بیٹھے مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے، آج دینیات کے ٹیچر نے ہوم ورک دیا کہ، کوئی کتاب ہے جو ہم سے مخاطب ہوتی ہے، ہم کلام ہوتی ہے۔آپ کو پتہ ہے کونسی کتاب ہے؟
امی : ہاں مجھے پتہ ہے نا وہ قرآن مجید ہے،
یہ سن کر عبداللہ چونک گیا، عبداللہ کے ذہن میں پروفیسر احسن صاحب کا وہی جملہ یاد آیا،قرآن اپنے نیک بندوں سے ہم کلام ہوتی ہے،
یہی جملے کی وجہ سے عبداللہ سونچ میں پڑگیا تھا۔
(وہ قرآن روزانہ پڑھتا، لیکن کبھی، ہم کلام ہوتے ہوئے نہیں،قرآن کی باتوں پر وہ عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا، حرام حلال کی تمیز رکھتا، نمازیں پابندی سے پڑھا کرتا، لیکن کبھی قرآن سے ہم کلام نہیں ہوا۔)
فاطمہ: آپ کو کیسے پتہ امی؟
امی : بیٹا اس دنیا میں بس ایک واحد کتاب ہے جو بولتی ہے، ہم سے مخاطب ہوتی ہے.
فاطمہ: امی یہ کیسے ممکن ہے بھلا کتاب ہم سے باتیں کرتی ہے؟
امی: بیٹا یہ ممکن ہے، قرآن ہم سے ہم کلام ہوتی ہے، وہ انہی سے بات کرتی ہے جو اُس سے بات کرنے کے خواہشمند ہو، اُس کی زبان ہے نہ مٌنہ، پھر بھی وہ ہم سے مخاطب ہوتی ہے، اُسکے کان نہیں ہے، پھر بھی وہ ہمیں سنتی ہے.
چلو آج تمہاری بات کرواتے ہیں، تمہارے دل میں جو بھی سوالات ہو وہ تمہیں مل جائینگے، پر ایک نصیحت یاد رکھنا تمہیں اس کتاب پر پورا یقین ہو، تمہاری نیت خالص ہو، اور اللہ سبحان و تعالیٰ سے پناہ کی دُعا طلب کرنا، پاک صاف ہوکر وضو کر کے آؤ.
یہ باتیں عبداللہ سن رہا تھا،
اُس نے بھی امی جان سے خواہش کی، میری بھی قرآن سے بات کروائیں
( امی جان،عبداللہ اور فاطمہ قرآن پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں، ہر سوال کے جواب میں امی اپنے بیٹے اور بیٹی کو قرآن کے آیاتوں کے ذریعے جواب دیتی ہے)
فاطمہ: امی میرے دل میں کیا چل رہا ہے وہ قرآن کو کیسے پتہ چلتا ہے؟
امی: تمہارے اس سوال کا جواب بھی اسی کتاب میں موجود ہے. دیکھو!
وَاَسِرُّوۡا قَوۡلَـكُمۡ اَوِ اجۡهَرُوۡا بِهٖؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞
اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ ۞(سورہ ملک 13،14)
ترجمہ:تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اُونچی آواز سے(اللہ کیلئے یکساں ہے)، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے، کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ حالانکہ وہ باریک ہیں اور باخبر ہے.
عبداللہ: امی میں تو سمجھتا؛ تھا کہ قرآن محض نبیوں کے واقعات اور نماز روزے تک ہی محدود ہے.
امی: بیٹا پر قرآن یہاں تک محدود نہیں ہے، قرآن میں ہماری پوری زندگی ہے، قرآن کے پاس ہمارے ہر پریشانی، فکر کا حل ہوتا ہے.
فاطمہ :پر امی صدیوں پہلی نازل کی گئی کتاب، میری زندگی کے بارے میں کیسے بتاسکتی ہے؟
امی: بیٹا سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ كِتٰبًا فِيۡهِ ذِكۡرُكُمۡؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ۞( الانبیا)
ترجمہ:لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
فاطمہ: امی ہمارے ٹیچر نے بتایا تھا کہ چار آسمانی کتابوں میں، قرآن مجید کے علاوہ سارے کتابوں میں لوگوں نے اپنے حساب سے باتیں شامل کرلی ہے، تو قرآن میں کوئی غلط بات شامل نہیں کی گئی اس بات کا کیا ثبوت ہے؟
امی: اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ؕ ۞(الکہف)
ترجمہ:تعریف اللہ کے لیے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی ہے اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی.
بیٹا اللہ خود اس کتاب کی حفاظت قیامت تک کرے گا.اس طرح قرآن انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی اور حق و باطل کا فرق واضح کرنے کیلئے نازل ہوا ہے، سورہ البقرہ کی 185 میں اللہ فرماتے ہیں کہ:رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے،اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے….
قرآن مجید انسانوں کے نام اللہ سبحان و تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، قرآن ہمارا اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے، اللہ اپنے بندوں کو خاص فضل سے نوازتا ہے اور اس کو پڑھنے، سمجھنے کی توفیق عطا فرماتا ہے. سورہ ص کی 29 آیات میں اللہ فرماتے ہیں کہ:(یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے، تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں.)
قرآن زندگی کے ہر قدم پر آپ کا ساتھی بن کر چلتا ہے، ہر ٹھوکر پر سہارا دیتا ہے، یہ ایک مرہم کی طرح ہے جو نہ کہ صرف زخم بھرتا ہے بلکہ سکون بھی عطا کرتا ہے، یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ رہنمائے زندگی ہے، یہ اُس رب العزت کی کتاب ہے جو:
“اللہ کے تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے، زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہی اول اور وہی آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے”(الحدید ۱-٣).
پتہ ہے!
بیٹا!! تمہیں پتہ ہے!
“جب انسان دنیا کی اندھیری راہوں میں بھٹک جاتا ہے اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہ آئے تب اس کے پاس صرف ایک راستہ موجود ہوتا ہے۔ وہ راستہ جو اندھیروں سے دور روشنی کی طرف لے جائے ۔وہ راستہ جو ہے بے چینی و اضطرابی کے دلدل سے نکال کر سکون کی طرف لے جائے، وہ راستہ جو برائیوں کو کچل کر نیکیوں کی طرف لے جائے ، وہ راستہ جو بنا ڈگمگاے سیدھا جنت کی طرف لے جائے ۔وہ راستہ قرآن کا راستہ ہے”۔
یہی وہ راستہ جس سے ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں ۔
سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی فرماتے ہی کہ:- “حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بلکل سیدھی ہے…
عبداللہ اور فاطمہ بہت غور سے سن رہے تھے۔
عبداللہ: یعنی اللہ تعالی قرآن کے ذریعے ہم سے ہم کلام ہوتا ہے، ہمیں کس وقت، کس معاملے میں کیا کرنا چاہیے، ہمیں راستے بتاتا ہے۔
یوں کہو تو، قرآن ہمارے لیے، ساری انسانیت کے لیے نازل ہوئی ہے۔
امی : ہاں صحیح کہا!
مگر ایک بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا کہ
قرآن مجید کا حق صرف پڑھنے سے ادا نہیں ہوتا، یہ کتاب دعوت، تحریک کی بھی کتاب ہے، پوری دنیا کے لئے انقلابی کتاب ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اسے خود سمجھے اور اس کتاب کے ذریعے ساری دنیا میں اس کا پیغام پہنچائے ۔
سورہ عمران کی 110 آیات میں اللہ تعالی فرما تے ہیں:”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”.
عبداللہ: جی امی پروفیسر احسن صاحب نے بتایا تھا، قرآن کا حق تبھی ادا ہوتا ہے، جب ہمارے عمل کے ساتھ ہم قرآن کی تعلیم کو لوگوں تک پہنچائیں۔
امی : ہاں بیٹا! ہمیں ہر لمحہ اس بات کی فکر کرنی ہے، ہم قرآن کا حق ادا کریں، یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔
اب مانتے ہو نہ یہ کتاب بولتی ہے؟
فاطمہ اور عبداللہ : جی ہاں امی مانتے بھی ہے اور یقین بھی کرتے ہیں اور ان شاءاللہ عمل کرنے کی کوشش بھی کرینگے۔
انشاءاللہ!
اختتام۔۔
– فائزہ کوثر –
