Become Our Member!

Edit Template

دنیا کی محبت ہر مصیبت کی جڑ ہے

ارشادِ باری تعالی ہے۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ وَّزِيۡنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيۡنَكُمۡ وَتَكَاثُرٌ فِى الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ‌ؕ كَمَثَلِ غَيۡثٍ اَعۡجَبَ الۡكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيۡجُ فَتَرٰٮهُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ يَكُوۡنُ حُطٰمًا‌ؕ وَفِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۙ وَّمَغۡفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانٌ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ
ترجمہ
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔

دُنیا میں اس وقت جتنے بھی جرائم اورگناہ ہیں، ان کا سبب دُنیا کی چاہت اور محبت ہے۔ دھوکا بازی، چور بازاری، رشوت، مال ودولت کا لالچ، بدعنوانی، بدکاری، دُنیاوی لذتوں کے حصول کے لئے جائز و ناجائز کی پرواہ نہ کرنا دراصل یہ سب صرف دُنیا کی محبت ہے۔

ہر ِانسان نے دُنیا پر محنت کی اور اس محنت کے نتیجہ میں جو کامیابیاں حاصل کیں، اسی کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھا اور موت کو بھلا بیٹھا حالانکہ موت ایک حقیقت ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ کسی چیز کو فراموش کر رکھا ہے تو وہ ہے موت۔ ہم سمجھتے ہیں، جنہیں اپنے ہاتھوں سے دفنایا، موت تو صرف انہی کے لئے تھی، ہم نے تویہاں ہمیشہ رہنا ہے۔

حالانکہ دُنیا میں ہر انسان کے قیام کی ایک مخصوص و مختصر حد مقرر ہے، جسے مہلت کہا جاتا ہے اور ہمیشہ رہنے کی جگہ تو اس مختصر مدت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ مہلت اس لئے کہ اسی مختصر مدت اور وقفہ میں کئے گئے اعمال پر آخرت کا انحصار ہے ۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں، کہ دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہو اور اللہ کی محبت بھی سمائی ہو، یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے کہ یہ صرف خیال ہے ۔ جب دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہو تو اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے داخل ہوسکتی ہے؟۔۔ اور جب اللہ کی محبت نہیں تو احکام الہی کی ادائیگی میں سستی، کاہلی، دشواری مشکل ہوگی اور حلال وحرام، جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوجائے گی، پھر کامیابی کا معیار صرف اورصرف مال و دولت بن جائے گا۔ دُنیا میں اس وقت جتنے بھی جرائم اورگناہ ہیں، ان کا سبب دُنیا ہی کی چاہت اور محبت ہے۔

حدیث میں آتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے : “دُنیاکی محبت ہر گناہ اورمصیبت کی جڑہے۔ ” ( کنز العمال : حدیث 6114 ) ۔ چوری کرنا، خرید و فروخت میں دھوکہ اورفریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سودکھانا، امانت میں خیانت کرنا، جوے بازی اور حرام چیزوں کی تجارت، بے گناہ لوگوں کو نہ صرف پریشان کیا جاتا ہے بلکہ ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کئے جاتے ہیں، گواہوں، وکیلوں، ججوں کو رشوت دے کر فیصلے اپنے حق میں کروالئے جاتے ہیں۔ ناجائز طریقہ سے مال غصب کرنا موجودہ دور میں عام سی چیز ہو گئی ہے۔ یہ سب دُنیا کی چاہت اور محبت ہی تو ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا ہوگا کہ یہ دُنیا ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں، بلکہ عارضی پڑاؤ، منزل تک پہنچنے کے لئے ایک ذریعہ اورسبب ہے۔ اس دُنیا میں رہتے ہوئے اس مہلت کا احساس اور قدر ہے تویقیاََ یہ دُنیا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت اور ہم پر اللہ کافضل وکرم ہے۔

اگر معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے، نشان منزل کے بجائے، اسے ہی منزل جان بیٹھے، باقی سب کچھ بھلا کر اسی کے حصول میں مگن ہوگئے تو باعث ہلاکت ہے۔ یعنی دُنیا کے معاملات اللہ کے احکامات کے مطابق چل رہے ہیں تو دُنیا کامیابی اور ہمیشہ کی عزت وسربلندی کا ذریعہ ہے، لیکن اگر صرف دُنیا ہی دل و دماغ پر مکمل طور پر راسخ ہوجائے کہ دن رات میں دُنیا کے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہ دے تو یہ دُنیا نقصان اورخسارہ کا باعث ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ” اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا، وہ دُنیا میں تنگ حال رہے گا اور ہم اُسے بروز ِقیامت اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا: اے میرے رب! تونے مجھے نابینا بناکر کیوں اُٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟ اللہ تعالیٰ جواب دے گا: اسی طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔ اسی طرح آج تمہیں بھی بھلادیا جائے گا۔” (طٰہ126-124:20)

دُنیا کی بہت ہی خوبصورت مثال دیتے ہوئے مولانا رومیؒ نے فرمایا کہ دُنیا کے بغیر انسان کا گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس دُنیا میں زندہ رہنے کے لئے بے شمار ضرورتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اوردُنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔

جیسے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی۔ اگر کوئی شخص خشکی پر کشتی چلاتا ہے تو نہیں چلے گی، اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے دُنیا ضروری ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے پیسہ چاہئے، کھانا چاہئے، پانی چاہئے، مکان چاہئے، کپڑا چاہئے ان سب چیزوں کی اس کوضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں دُنیا میں ہیں۔ لیکن جس طرح پانی کشتی کے لئے اس وقت تک فائدہ مند ہے جب تک پانی کشتی کے نیچے، دائیں اوربائیں طرف ہے، اس کے آگے اور پیچھے ہے۔ لیکن اگر وہ پانی دائیں بائیں کے بجائے کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو کشتی ڈوب جائے گی، تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح دنیا کا ساز و سامان جب تک ہمارے چاروں طرف ہے تو پھر کوئی ڈر نہیں اس لئے کہ ساز و سامان ہماری زندگی کی کشتی کو چلائے گا۔ لیکن جس دن دُنیا کا یہ ساز و سامان ہمارے دل کی کشتی میں داخل ہوگیا، اس دن ہمیں ڈبودے گا۔بالکل اسی طرح جیسے پانی کشتی کے اردگرد ہو تو کشتی چلاتا ہے اور جب وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو کشتی ڈبودیتا ہے۔

اللہ کے احکامات سے غفلت اور روگردانی کے سبب نقصان و خسارہ اور ناکامی صرف آخرت کی ہی نہیں بلکہ دُنیا کی ناکامی اور نامرادی بھی ہے۔ اللہ کی یاد سے غافل، احکام الہی سے روگردانی اور دُنیا کی تمنا میں اندھا ہوجانے سے تنگی گھیرلیتی ہے اور روزی کی کشادگی کے باوجود انسان کا اطمینان اور سکون چھین لیا جاتا ہے، گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے موجود نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور آنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے، میری اُمت پر ایک ایسا وقت آئے گا، کفار میری اُمت پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے، صحابہ کرام نے پوچھا کیا تب ہم تعداد میں کم ہوں گے، آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تعداد میں تو بہت ہوں گے، لیکن موت کے خوف اور دُنیا کی محبت میں مبتلا ہونگے۔ بدقسمتی سے ہرخاص و عام، بظاہر دین دار یا دُنیادار، عوام، رعایا، حکمران طبقہ سب کے سب دُنیا کی محبت میں گرفتار، دُنیا اور دُنیا کے مال کا دفاع کرتے نظرآئیں گے۔

ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ دُنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا، لیکن اللہ کی محبت سے دُنیا وآخرت دونوں سنورجاتے ہیں۔ اسلام میں کہیں بھی ترک دُنیا کا ذکر نہیں، بلکہ ترک دُنیا کوسخت ناپسند فرمایا گیا ہے ۔ لہٰذا دُنیا میں رہتے ہوئے، معاملات دُنیا چلاتے ہوئے، دُنیا کماتے ہوئے، تجارت، زراعت، حکومت کے ہوتے ہوئے آخرت کو فراموش کئے بغیر اس دُنیا کے سارے معاملات کے ساتھ آخرت کی بھلائی اور کامیابی بھی پیش نظررہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں بلکہ یہ عارضی پڑاؤ اورمہلت ہے تاکہ اس میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کی جائے۔

یہ مرقد سے صدا آٸ ، حرم کے رہنے والوں کو
شکایت تجھ سے ہے اے تارکِ آٸینِ آباٸ
تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے
کُنشتی ساز، معمورِ نوا ہاۓ کلیساٸ
ہوٸ ہے تربیت آغوشِ بیت اللہ میں تیری
دلِ شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سوداٸ

از قلم : خولہ نجیب، جگتیال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIO Telangana

Girls Islamic Organisation of Telangana (GIO) is a student organisation for girls who’s aim is To prepare female students and young women for the reconstruction of the society in the Divine Light of Guidance.

Most Recent Posts

  • All Posts
  • Books
  • E-books
  • English
  • Events
  • From The Members Desk
  • Urdu
    •   Back
    • Urdu Books
    • English Books
Play Video

Category

Tags

© 2024 Girls Islamic Organisation Telangana.