Become Our Member!

Edit Template

انسان کا اصل مقصدِ حیات

انسان کا اصل مقصدِ حیات

انسان کا اصل مقصدِ حیات
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

انسان کو کیوں پیدا کیا گیا ہے؟

انسانیت آہستہ آہستہ اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کی سمت آگے بڑھ رہی ہے، اور صدیوں سے لوگ اس سوال کے جواب پر غور و تدبر کرتے آئے ہیں، اور جنہوں نے سچے دل سے کوشش کی انکو یہ جواب مل گیا اور وہ سرخ رو ہوے.

قرآن حکیم پر تفکر و تدبر کرنے والا انسان اس بات کو بہتر جان سکتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالہ نے انسان کے اندر غیر معمولی استعداد، غیر معمولی صلاحیتیں، ہزاروں کمپیوٹروں سے ذیادہ طاقتور ذہن اور بہترین ڈیزائن کے ساتھ اعلی شکل و صورت عطا کرکے تختۂ زمین پر بھیجا ہے، تو ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے.
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴) ترجمہ : ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے.
اللہ سبحان و تعالہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا ہے، علم و فن اور عقل و شعور کے میدان میں انسان کو غلبہ عطا کیا گیا ہے، قوانین فطرت بھی انسان کی سہولت کے لیے تشکیل دیے گیے ہیں.
انسان کی عظمت کو اس حد تک بلندی عطا کی گئی ہے کہ دنیا کی ہر چیز بلکہ ہر مخلوق کو اسکی خدمت کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے .
اسی طرح کے کئ تصریحات قرآن و حدیث میں موجود ہیں،
قرآن حکیم میں آتا ہے کہ فرشتے ہر سو انسان کی خدمت کا کام کرتے ہیں.

جبرائیل (علیہ السلام) نے آپﷺ کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97)
8۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گے۔ (الزمر :68)
9۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف :77)
10۔ قیامت کے دن 8فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقۃ:17)
11۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔ (المؤمن :7)
12۔ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر :73)
13۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر: 71)

حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ
جو شخص آیت الکرسی پڑھ کر سوتا ہے ایک فرشتہ اللہ کی طرف سے اس پر عبادت کے لئے معمور ہو جاتا ہے. حدیث
بخاری شریف میں ہے وإذا أویت إلی فراشک فاقرأ آیة الکرسي․․․ حتی تختم الآیة فإنک لن یزال علیک من اللہ حافظ ولا یقربنک شیطان حتی تصبح”

یعنی جب تم بستر پر سونے کے لیے لیٹو تو آیت الکرسی پوری پڑھ لو تو پوری رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ حفاظت کے لیے مقرر رہے گا اور کوئی شیطان تمھارے قریب صبح تک نہ آسکے گا۔

سورج اللہ کے حکم سے وقت مقررہ پر انسانی خدمت کے لیے طلوع ہو جاتا ہے اور اپنا کام انجام دے کر غروب ہو جاتا ہے. زمین انسانی اناج ڈھوتی ہے، جانور اپنے گوشت و دودھ سے انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں.
اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن میں یوں ارشاد فرمایا
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (29)
اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا، اور وہ ہر چیز جانتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سورہ مومنوں میں ارشاد فرماتے ہیں
ثُـمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ۖ ثُـمَّ اَنْشَاْنَاهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللّـٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ (14)

پھر ہم نے نطفہ کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنائی پھر ہم نے اس بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے ایک نئی صورت میں بنا دیا، سو اللہ بڑی برکت والا سب سے بہتر بنانے والا ہے۔
دنیا بھر کے عظیم سائنسدانوں نے اپنی مدتوں کی تحقیقات کے بعد یہی نتائج اخذ کیے کہ انسان میں جو انفرادیت موجود ہے اسکا دنیا کی کسی بھی مخلوق میں پایا جانا ممکن نہیں.

اللہ سبحان و تعالہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا 70؀ۧ
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت) بخشی۔ 
 اللہ تعالہ نے انسان کو بہترین صفات سے متصف فرما کر زمین پر بھیجا، انسان کو محبت کرنا سکھایا، انسانیت سکھای ، پیار، شفقت ، خلوص،  ہمدردی، بردباری، شرافت، احترام، حق گوئی، وفاداری،اخلاقی اقدار، تہذیب وادب، علم و حکمت کے خزانے عطا کئے ، جو کہ انسان کی سیاسی،معاشرتی و معاشی زندگی سے لیکر اخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی نعمتیں تھیں.
لیکن انسان نے انہیں فراموش کر دیا ہے،انسانی نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ انسان بری چیز کو اچھی چیز کے بر عکس جلدی قبول کر لیتا ہے .

انسان کا مقصد

اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس کے ذریعے دنیا کے اندر حریت، اخوت، اور مساوات کا ایک بہترین نظام قائم ہو، اور سیاسی ، معاشی، و معاشرتی میدان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے ہو‌ں، اور دنیا کے اندر امن و سکون قائم رہے، دنیا کا توازن بر قرار رہے، انسان اس لیے پیدا ہوا تھا کہ اس کے ذریعے کسی کی دل آزاری نہ ہو، وہ نرم مزاجی اور صبر کو اپنا شیوہ بنا لے، اسکی سوچ ایسی ہونی چاہیے تھی کہ اگر اسکی زبان نے کسی کو تسلی نہ دی تو کم از کم تلخ جملے ادا کر کے درد بھی نہ دے، اس کے الفاظ تواضع سے تر ہوں، وہ ہر اچھے کام میں سبقت لے جانے کی کوشش کرے، اسکی زندگی خوش اخلاقی سے معطر ہو، ظلم و زیادتی اس سے کوسوں دور رہے، ریاکاری سے احتراز کرنے والا ہو، صبر، سچائی ،اچھائی، اعلی ظرفی کے زیور سے آراستہ و پیراستہ رہے.

👈کیا انسان نے مقصد کو تکمیل تک پہنچایا ؟

برباد گلستاں کرنے کو ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟

کفر، شرک، منافقت، مادہ پرستی، ظلم و بربریت کی بلاخیز آندھی انسانیت کو تباہی کی طرف مدعو کر رہی ہے.

نفسیاتی تحقیق بتاتی ہے، کہ کسی چیز کو کھونے کا درد نفسیاتی طور پر کسی چیز کو حاصل کرنے کی خوشی سے دوگنا ہوتا ہے، اسی لیے انسان ہمیشہ حاصل کرنے کی لالچ میں لگا رہتا ہے..
شاید یہی وجہ ہے کہ آج انسان نے حریت کی جگہ نفرت، اخوت کی جگہ فرقہ واریت، مساوات کی جگہ عدم مساوات اور ظلم کو اپنالیا، اور سیاسی میدان میں بے ایمانی، معاشرتی میدان میں جبر و ظلم و تشدد، اقتصادی میدان میں تمام وسایل پر قابض ہوکر حیوانیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کو جھوٹ، بد اخلاقی،ناانصافی ،بے ایمانی ،حرام خوری، بددیانتی، لڑائی جھگڑے، چغلی، گالی گلوج، حسد، تکبر، کینہ، ظلم و زیادتی، منشیات کے بازار، ملاوٹ، حرص، بد عنوانی، قتل و غارت گری، شراب نوشی، بربریت سے پورا کر رہا ہے.
عجب سانحہ ہے کہ آج کا انسان اسی طرح کی مادہ پرستی کی آگ میں خود کو جھلسا چکا ہے اور خود پر ظلم کر بیٹھا ہے، جو کہ بڑے ہی ننگ و عار کی بات ہے.

تحقیقات بتاتی ہیں کہ
*دنیا کی 20 فیصد آبادی 80 فیصد وسائل پر اپنا قبضہ جماے بیٹھی ہے، یہ ایک عظیم ظلم ہے جو چھوٹے طبقات کئ صدیوں سے سہتے آ رہے ہیں.

انسان یہ کیوں بھول گیا ہے کہ
اس نے جو قرطاس اللہ سبحان و تعالہ کے سپرد کیے ہیں، ان میں یہ معاہدے شامل ہیں، کہ وہ اس شرف کا حق ادا کرے گا جو اسے دیا گیا ہے، اللہ سبحان و تعالہ کے اشرف المخلوقات کے ٹائٹل کے ذریعے اللہ کا نام سر بلند کرے گا ، اللہ کی زمین پر اللہ کا غلام بن کر رہیگا، اسکی حدود سے تجاوز نہیں کریگا. اور اللہ کے احکامات کی تعمیل میں رتی برابر بھی کوتاہی، لاپرواہی سے کام نہیں لے گا.
لیکن جیسے ہی انسان کو زمین پر چھوڑ دیا گیا اس نے اللہ سے بغاوت کردی.
اس قسم کی شر انگیزی پر بھی اللہ کی جانب سے انسانوں پر عنایات کی گئیں پر انسان نے اپنی خود ساختہ زندگی سے باز آنے سے انکار ہی کیا.

👈انسان کی سب سے بڑی ناکامی
دولت،دنیاوی مقام و مرتبہ، جاہ و ہشم، عیش کوشی، فنا ہوجانے والی عزت، مجازی کامیابی، ناپائیدار شہرت کہ پیچھے بھاگتے انسان نے اپنے اصل مقصد حیات کو ترک کر دیا .
دنیا کی ظاہری چکاچوند نے انسان کو انسان رہنے نہ دیا، سرمایہ دارانہ استعماریت نے انسان کے اندر خود ساختہ خواہشیں پیدا کیں، ضرورتوں کو بڑھایا، سادہ اور سہل اور پاکیزہ طرز زندگی کو گناہ، جہالت اور کمینگی ثابت کیا، خود ساختہ اسٹیٹس، اور کلاس کے پیچھے انسان کو بھگایا، اور پر تعیش طرز زندگی کو شرافت ثابت کروایا اور ان کاموں کیلیے پیسہ کمانے کی ہوس انسان کے اندر اس قدر بڑھی کہ انسان نے انسانیت کو ہی چھوڑ دیا.

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ : جب کسی چیز کا انسان عادی ہو جاتا ہے تو وہ عادت کو دور کرنا بہت بڑی دشواری بن جاتا ہے، منڈیوں پر قابض سرمایہ دارانہ استعماریت کے حیوانی درندوں نےمعصوم انسانوں کو بے وقوف بنایا کہ جب تم نہایت آسان طرز زندگی اپنا سکتے ہو تو مشکل کی طرف کیوں جاتے ہو، لہذا انسان بے وقوف بنتا گیا، اور محنت سے جی چراتا گیا، نتیجتاً انسانی جسم جوکہ سخت محنت کرنے کیلیے ڈزائن کیا گیا تھا ناکارہ ہوکر رہ گیا،اور پر تعیش زندگی کے سراب نے انکو اس قدر جکڑ لیا ہے کہ وہ انسانوں کی فطرت خمیر میں شامل ہوکر انکی عادت و فطرت بن گیا ہے.
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں.
اللہ کی بندگی کو اختیار کرنا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف بلانا اور راہ راست سے انحراف نہ ہونا انسانیت کو بچانے کا واحد راستہ ہے،.
اسکے لئے لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہیے کہ دنیا کے اندر جو جو اعمال کۓ جائیں گے اللہ تعالیٰ اسکی پکڑ کرے گا.
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)

تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟

از : صبورا حورعین گل ، ظہیرآباد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIO Telangana

Girls Islamic Organisation of Telangana (GIO) is a student organisation for girls who’s aim is To prepare female students and young women for the reconstruction of the society in the Divine Light of Guidance.

Most Recent Posts

  • All Posts
  • Book Review
  • Books
  • E-books
  • English
  • Events
  • From The Members Desk
  • Urdu
    •   Back
    • Urdu Books
    • English Books

Category

Tags

© 2025 Girls Islamic Organisation Telangana.